وہ کشتی طوفان سے تو نہیں ڈوبی تھی
تیر سکتی تھی ،مگر شہیتروں میں غداری تھی
راستہ آگے دِکھ سکتا تھا ،اگر چراغ جلتے رہتے
شمع ہواؤں نے نہیں ،خود چراغوں نے بجھائی تھی
سفر یہ چل سکتا تھا مزید تمھارے ہم سفر رہ کر
بعد تمھارے زمین کی میرے قدموں سے جدائی تھی
جب بچھڑ چکے ہو تو دِکھلاوا کیا کرنا ،شکوہ ہے یہ
کیوں کل محفل میں ہاتھ ملانے کی رسم نبھائی تھی
اور کہانی پوچھتے ہیں زمانے والے مجھ سے میری
تو سنو!میری کہانی ہے وہ جو بے نتیجہ ختم ہوئی تھی