یہ ہم آہنگیاں کبھی کبھی بڑی چوٹ کھاتی ہیں
کسی کو ملا جیون تو کسی کو موت دیتی ہیں
جب ان کے ذکر میں اپنا فکر ہوتا ہے
تو یہ بے جا آنکھیں چھوٹ جاتی ہیں
نہ حسرتوں کی ڈوری سے باندھنا کبھی
یہ لاگر کمریں اک دن ٹوٹ جاتی ہیں
جہاں تک خیال کا تذکرہ عمل لائے
تب تک قدموں کو راہیں لوُٹ جاتی ہیں
مانہ کہ مجھ سے وابسطہ وہم کی راتیں
کس نے کہا تب یادیں روُٹھ جاتی ہیں
تصور کی کوئی حدیں نہیں ہوتی سنتوشؔ
جہاں کی رعنایاں سب جھوٹ کہتی ہیں