مرے شہر میں جو ہوائیں چل رہیں ہیں
یہ مرے شہر کی ہوائیں نہیں ہیں
یہ پردیسی ہوائیں ہیں
یہ ہوائیں کیسی وحشت ڈھا رہیں ہیں
یہ ہوائیں خاموش دشت پھیلا رہیں ہیں
یہ ہوائیں قاصد لگ رہیں ہیں
دل نے کہا ذرا پوچھوں
ان ہواؤں سے
یہ کس شہر کی ہوائیں ہیں
یہ کس کا پیغام لائیں ہیں
ان ہواؤں میں جو خوشبو ہے
وہ جانی پہچانی ہے
یہ ہوائیں کیوں مرے ہی دریچوں میں شور کر رہیں ہیں
یہ ہوائیں کیوں دل پہ دستک دے رہیں ہیں
یہ ہوائیں کیوں مرے آنگن میں کوئی نوید لے
کر اتر رہیں ہیں
دل مخاطب ہوا ہواؤں سے
ہوائیں سماعتوں میں سرسراہٹ کر گئیں
مرے محبوب کا پیغام لے کر بٹ گئیں
ہواؤں نے مرے محبوب کا سلام دیا
ہواؤں نے مرے محبوب کا پیغام دیا
ہواؤں نے وصل کے لمحوں کا جام دیا
یہ ہوائیں مرے محبوب کی قاصد ہیں
ہوائیں محبوب کی حالت بتا رہیں ہیں
ہوائیں محبوب سے ملنے کی جسارت بڑھا رہیں ہیں
ہوائیں مجھے چھو رہیں ہیں
ہوائیں ساتھ لے جا مری خوشبو رہیں ہیں
دل نے کہا میں بھی
حال دل لکھ دو
محبوب کو جوابی پیغام لکھ دوں
دل کا سلام لکھ دوں
لکھ دیا
اے متاع جان
اے مری روح کے چین
اے خواہشوں کے ارمان
اے مرے بیتاب لمحوں کے قرار
اے مرے صبح و شام کے پیار
اے مری دھڑکنوں کے شمار
بن ترے نظارے دھواں لگتے ہیں
پھول بھی مرے آنگن میں کہاں کھلتے ہیں
ترے ہجر میں جل رہی ہوں
قندیل کی طرح پگھل رہی ہوں
وصل کی بارش دے دو
ہجر کے موسم واپس لے لو
مری اداس آنکھوں میں ترے ملن کے سپنے بے دھڑک آتے ہیں
ھر سپنے کو ہجر کے لمحے کھٹک جاتے ہیں