آنکھوں میں لے کے الجھی یادوں کی شام آیا
یہ انتظار تیرا میرے نہ کام آیا
تجھ کو خبر نہیں ہے مجھے چھوڑ جانے والے
اور نامہ بر بھی لے کے خط نہ سلام آیا
آگے ہے میرے دریا ، پیچھے ہے غم کی کھائی
الفت کے راستوں میں کیسا مقام آیا
مجھ پہ ہی رک گیا تھا رستہ مری وفا کا
محفل میں اس کی لیکن ہر خاص و عام آیا
دیکھا جو فون میں نے کسی اور کا تھا میسج
میں یہ سمجھ رہی تھی اس کا پیام آیا
اب اور کیا میں زخمِ تمنا تجھے بتاؤں
آنکھوں میں لے کے دریا صدمے مدام آیا
لاکھوں جتن کیے تھے خوشیاں ہوں زندگی میں
وشمہ کی زندگی میں غم لے کہ شام آیا