ابھی تلک میں ترے خواب کے حصار میں ہوں
میں نیند میں ہوں کہ نیندوں بھرے خمار میں ہوں
نہ میں ڈوبی چناب میں نہ تھل میں جل کے مری
کوئی بتائے کہ میں کون سی قطار میں ہوں
میری تلاش میں صدیاں بھٹکتی پھرتی ہیں
میں نقش پا ہوں مگر راہ کے غبار میں ہوں
میں اپنے آپ پہ ہر اختیار کھو بیٹھی
پتا چلا کہ اب میں تیرے اختیار میں ہوں
کہا گیا ہے جنت ہے میرے پاؤں تلے
مگر ہے کیا میری وقعت میں کس شمار میں ہوں
صدا کسی بھی دے نہیں رہی شاہین
میں اپنے گھر میں نہیں خامشی کی غار میں ہوں