اب محبت کا الزام ہے اور وہ
سرمئی سرمئی شام ہے اور وہ
اک کتابِ محبت ہے دل پر رقم
جس میں شامل مرا نام ہے اور وہ
اب تخیل میں کیا ہو نیا ہر گھڑی
تھی جو پہلے وہی شام ہے اور وہ
میں وفا کے قفس میں اکیلا نہیں
اک تعلق کا ابہام ہے اور وہ
میرے کمرے کی تنہائی میں میز پر
میرے لفظوں کا کہرام ہے اور وہ
چشمِ احسن میں دیکھو تو اور کچھ نہیں
حسرتوں سے بھرا جام ہے اور وہ