اس تتلیوں کے دیس سے ،آوارگی سے میں
کرتی ہوں پیار آج بھی خوشبو، کلی سے میں
ہجرت کا میرے دوستو سوچا نہیں کبھی
بس مطمئن ہوں درد کی اپنی گلی سے میں
جب موت کی سچائی کو تسلیم کر لیا
پھر دور دور ہی رہی ہوں زندگی سے میں
ہر شعر ہے یہ دوستو پیغامِ زندگی
کہتی ہوں دل کی بات بھی تو شاعری سے میں
ہوں مرکزِ نگاہ مگر پھر بھی دیکھئے
"جاناں بہت اداس ہوں اپنی کمی سے میں"
یہ عشق کا غبار ہے چہرے پہ جم چکا
کیسے قدم ہٹاؤں رہِ عاشقی سے میں
وہ ہے حصارِ ذات میں محصور اس لئے
وشمہ کروں گی بات ابھی سادگی سے میں