ذکر ہو اس مہربان کا
تو
آجاتی ہے کچھ ایسی حلاوت لہجے میں
سکھیاں میری تعجب سے پوچھتی ہیں
سنو! یہ سارے زمانے کا شہد کیسے تمہاری زبان میں سمو جاتا ہے؟
یہ سارا اس پرغصہ کیسے اتر جاتا ہے؟
میں مسکرا کر اکثر یہ کہتی ہوں
اری پگلیوں! کبھی پهول کی لڑائی بهنورے سے ہوئی ہے؟
کیا کبھی چاند کو چکور سے خفا دیکھا ہے؟
کیا کبھی تالاب کے بغیر کنول کو کھلتے دیکھا ہے؟
وه حیرانگی سے مجھے دیکھ کر کہتی ہیں
ہمیں تو تم جوگن لگتی ہو،پریت کے تار بنتی ہو
نت نئے خواب سجاتی ہو
اپنے ہاتھ اس آگ سے جلاتی ہو
پهر بھی باز نہ آتی ہو
میں ہنس دیتی ہوں
آنکھیں بند کر کے سوچتی ہوں
پریت میں تھی اس کی کچھ ایسی اگن
گزر گئی مدت مجھے کندن بنے ہوئے