اک بار محبت کا کوئی پھول کھلا دو
اک بار محبت کی یہاں شام کی صورت
لوٹ آئے وہ لے کر مری روٹھی ہوئی نیندیں
لوٹ آئے وہ میخانے میں اک جام کی صورت
کھلتا نہیں آنکھوں میں کسی شب کا دریچہ
ملتا نہیں آرام بھی آرام کی صورت
تنہائی کو سینے سے لگا رکھا ہے کب سے
اس بزم محبت میں یہ کس دام کی صورت
اے وشمہ مجھے اپنی نگاہوں سے پلا دو
حاضر ہے مری جان بھی اک جام کی صورت