بلاؤ اُنہیں کہ آج رنگ پہ محفل بھی ہے
جو میری زیست کا حاصل ہے،قاتل بھی ہے
قسمِ جاناں نے پہنا دی ہاتھوں میں چوڑیاں
ورنہ زورِ بازو بھی ہے ، جذبہِ دِل بھی ہے
دِل کے آنگن میں ڈیرے اُداسیوں کے ہیں
جبکہ بہار بھی، بارش بھی ہے، بادل بھی ہے
اُس کے اِن لفظوں سے جاں کی خلاصی ہوئی
یہ تو مجنوں ہے، دیوانا ہے، پاگل بھی ہے
آج تیرِ نیم کش تو دِل والے ہی سہیں گے
کہ زلف ہے بکھری ہوئی ، آنکھ میں کاجل بھی ہے
بہکاتا ہےجنوں پھر مجھے دشت کے لیے
ناؤ بھی ہےمیرے پاس، سامنے منزل بھی ہے