نہ جرم ہوا نہ ہوئی کوئی خطا
لگے الزام محبت میں بے حساب
عدالت بھی اسکی فیصلہ بھی اسکا
ہوا محبت سے یوں وہ بری بے حساب
طفل مکتب تھے ہم اور وہ ماہر نصاب
بدلتا رہا محبت کے باب وہ بے حساب
خاموشی کو میری دے گیا نااہلی کا خطاب
تھا اپنی لیاقت پر جسکو زعم بے حساب
جلا دیے وہ محبت نامے ہم نے بے اختیار
لکھے جو کسی اور کے نام اس نے بے حساب
چل نہ سکا دو قدم بھی وہ محبت کے ساتھ
کیے جس نے عہد و پیماں عقد میں بے حساب
سزا دیتے ہم بھی اس کو بےوفائ کی یوں بےحساب
گررکھتےنہ ہم اس دل میں محبت یوں بے حساب