میں مسافر اندھیری راہوں کا ”تم نہ آتے تو”
چاندنی بن کے آگئے ھو تم
میری راھوں میں روشنی بن کر
گام در گام چھا گئے ہو تم
میں کہ سر تاپا ایک وحشت تھا
چین سے آشنا کیا تم نے
تم کو معلوم ہی نہی ہم دم
کیا تھا میں اور کیا کیا تم نے
میں تھا ویرانہ ایک مدت سے
تم جو آئے تو ندگی جاگی
میں کہ خالی اندھیرا کمرا تھا
اور تم آئے،روشنی جاگی
اپنی نفرت میں جل رہا تھا میں
خود سے اک بیر میں نے پالا تھا
میں وہ بیری تھا جس نے اپنے کو
نوچ رکھا تھا ،توڑ ڈالا تھا
تم نے سب زخم میرے سی ڈالے
مجھ کو جوڑا ہے اور سنبھالا ہے
پھر تراشا ہے ٹوٹتا پیکر
مٹتے پیکر کو پھر سے ڈھالا ہے
تم نے ڈھونڈھا ہے مجھ میں وہ انسان
جس سے خود بے خبر رہا تھا میں
میرے ھمدم ،مرے نفس،مری جان
تم نہ آتے تو مر رہا تھا میں