جب سے تمناؤں نے سینے میں پلنا چھوڑ دیا ہے
تم نے بھی ستارو چمکنا چھوڑ دیا ہے
یوں سونی پڑی ہے کہکشاں ساری
جیسے کسی نے آنا چھوڑ دیا ہے
حجاب ہوتا تو ستم نہ ہوتا اتنا
ظلم ہےکہ اس نے شہر میں آنا چھوڑ دیاہے
دورحد نگاە تک کوئی رنگ ہی نہیں ہے
پھولوں نے بھی جیسے سنورنا چھوڑ دیا ہے
اس خوشبو نے کیا ہے اسطرح بیخود
اب ہم نے ہوش میں آنا چھوڑ دیا ہے