جفائیں آ زماؤ گی تو کچھ ایسی علامت بھی
وفائیں آ زماؤ گی تو پھر صداقت بھی
نرالی سوچ ہے اپنی انوکھا پیار ہے اپنا
جسے دیکھا نہیں اب تک تمہاری یہ محبت بھی
محبت کی خریداری جہاں سے کر رہی ہوں میں
خیال و خواب والا اک عجب ایسی رفاقت بھی
بظاہر تو وفاؤں کا کوئی رشتہ نہیں اس سے
جسے تو بندگی کہتی ہے وہ ایسی عبادت بھی
مری نیندیں اڑا کر جو مجھے بے چین رکھتا ہے
نہیں ہے دوسرا کوئی دلِ کی ہے حکایت بھی
یہی پتھر گلے میں ڈال لو ہیرا اسے جانو
جو ہیرا ڈھونڈنے نکلی تو پھر لیکن سہولت بھی
وشمہ جس سے تعلق ہے فقط میرا تصور تک
مجھے اقرار کرنا ہے مری خاموش چاہت بھی