اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار میرا
سخت نادم ہے ہے مجھے دام میں لانے والا
تیرے ہوتے ہوئے آجاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا
دنیا کے تذکرے تو طبیعت ہی لے بجھے
بات اس کی ہو تو پھر سخن آرائیاں بھی ہوں
نشے سے کم تو نہیں یاد یار کا عالم
کہ لے اڑا ہے کوئی دوش پہ ہوا کے مجھے
میں خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں والے
اداس چھوڑ گئے آئینہ دکھا کے مجھے
ملے کوئی بھی تیرا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
کہ جیسے سارا جہاں رازدار اپنا ہے
الم گزیدہ سہی پیرہن دریدہ سہی
مگر لبوں پہ غم دل نہ آشکار کریں
کھنچی ہوئی ہے میرے آنسوؤں میں اک تصویر
فراز دیکھ رہا ہے وہ مسکرا کے مجھے