درودیوار پر کوئی نقش ابھر آیا ہے
یاد کے سانچے میں ڈھل کے کوئی آیا ہے
کوئی آواز سی کانوں میں پڑتی ہے
جیسے سرگوشی میں مجھے کسی نے بلایا ہے
بارش تو نہیں مگر دیوار پر سیلن ہے
اس تصویر سےلگتا ہے آنسو ٹپک آیا ہے
ہوا کے جھونکے سے کھڑکی کے پٹ کھل گۓ
ایسالگا وە روح بن کر مجھ میں اتر آیا ہے
کمرے میں اب اندھیرا نہیں روشنی ہے
جب سے دل کا دیا کسی نےجلایاہے