دل بنا کے ساحل پر لکھا جو تیرا نام
لہروں نے سکھایا مجھے محبت کا انجام
خمارِ بادہ ،نگاہِ نرگس ،نوائے بلبل کسی نے بولا
دل میں اس وقت کچھ نہ آیا یاد بس ترا خرام
طوفانوں سے گر جاتے ہیں شجرِ تن آور بھی
تو سمجھا تیری محبت کو مل سکے گا یہاں دوام
ٹکڑے اپنے چن رہا تھا کہ ایکدم یوں بکھر گئے
اِدھر اُدھر جب نظر پڑی تو نازل ہو چکی تھی شام
میں تشنہ گزر جو بیٹھا سرِ بازار تجھ سے ہو کر
رسوا ہوا میں ساقی پی کے تیری آنکھوں کا جام
سو عیب گنوا دیے میری زرا سی تلخ کلامی پہ
طٰہٰ ورنہ کبھی ہوتا تھا شیریں سخن تیرا کلام