راتوں کو صُبْح جاگ کے کرنا کہاں گیا
آہیں وطن کی یاد میں بھرنا کہاں گیا
اُجڑے چمن میں اب بھی تمنّا بہار کی
جو حسرتوں میں تھا کبھی مرنا کہاں گیا
بھیجا ہے میری بُھوک نے مجھ کو وطن سے دُور
مرضی سے اپنی میں کبھی ورنہ کہاں گیا
سب یہ سمجھ رہے ہیں یہاں میں خوشی سے ہُوں
خوشیوں میں غم کا آج بھی دھرنا کہاں گیا
جو دیس سے گیا ہے، وہ رویا ہے دیس کو
کہتے تھے جس کو ہم کبھی اپنا کہاں گیا
جاؤں پلٹ کے، اب بھی یہ خواہش تو ہے خلش
اپنوں سے سے، اپنے دیس میں ڈرنا کہاں گیا