رکھتی تھی جس کے ڈر سے میں خود کو سنبھال کے
وہ چل دیا ہے پھر مجھے مشکل میں ڈال کے
آنکھوں میں تیری یاد کا دریا نہیں رہا
موتی ہیں میری آنکھ میں حزن و ملال کے
دل کی اداؤں سے ابھی واقف نہیں ہے وہ
قصے سنا رہا ہے جو حسن و جمال کے
کیسے حصارِ ذات سے باہر وہ آئے گا
مجھ کو وہ بزمِ یار سے باہر نکال کے
ھر شہر شہر پیار کے دربار بن گئے
چرچے ہوئے جو چار سو میری دھمال کے
جب چاہا عشق ذات کو بھی زیر کر لیا
وشمہ ہماری آنکھ میں فن ہیں کمال کے