شام تیرے سنگ یوں رنگ بدلتے ہیں لوگ
چہرے پے اک نیا چہرہ سجا لیتے ہیں لوگ
غمِ زندگی کو بھلانے کے لیۓ اک نئ محفل سجا لیتےہیں لوگ
سانولی سلونی گھٹا کی طرح زلفِ پریشاں سنوار لیتے ہیں لوگ
گھر کی دیواریں تنگ ہوں تو میخانے کا رُخ کر لیتےہیں لوگ
پری چہرہ محفل جاں ہو تو گستاخ نگاہ جما لیتے ہیں لوگ
نگاہوں کے تصادم سے دل کے بھید جان لیتے ہیں لوگ
آنکھوں میں چھپا درد جان کر بھی انجان ہی رہتے ہیں لوگ
باتوں باتوں میں عہد تو کیۓ بہت اے دوست ہم نے
بھول گۓ تو کیا یہاں تو روز ہی بدل جاتے ہیں لوگ
پنکھ لگے پنچھیوں کے اُونچی اُونچی اُ ڑان اڑتے ہیں روز
منایئں کس کس کا سُوگ صُبح ملتے شام بچھڑ جاتے ہیں لوگ