اَنا پرست تھے تمام شہر والے
اور مجبور ہوئے صرف ہم دونوں
خفا ہو کے وہ تو مل گئے
اور دور ہوئے صرف ہم دونوں
ترے اپنوں نے بھی وار کیے
میرے اپنوں نے بھی وار کیے
خوشحال رہے یہ اپنے اپنے
اور چُوڑ ہوئے صرف ہم دونوں
ضد کے غلام تھے دونوں گھرانے
ملنے نہ دیا دل والوں کو
نفرت کے چراغ جلاتے ہی گئے
اور بے نُور ہوئے صرف ہم دونوں
زندگی کے سمندروں میں دیکھو
نفرت کے شناور پاڑ گئے
سارے ہی سفینے عبور ہوئے
اور نا عبور ہوئے صرف ہم دونوں