ستم کرتے ہو میرے دوست بن کے مہرباں مجھ پر
میں چپ ہوں گر چہ نیت سب تماری ہے عیاں مجھ پر
لبوں رک گئی ہیں آکے باتیں ساری دل والی
بیاں تجھ سے کروں میں اس قدر آساں کہاں مجھ پر
تقاضا ہے تمارا گنگناؤں مسکراؤں میں
کھلیں کیسے لبوں پہ پھول چھائی ہے خزاں مجھ پر
ادب کرتی ہوں پھر بھی کم نہیں ہے اس کی گستاخی
لگاتا ہے بڑی اب تہمتیں وہ بدزباں مجھ پر
ستم اپنوں نے ہی ڈھائے ہمیشہ کیا کہوں آخر
ستم اب یہ نیا ٹوتا نہیں ہے باغباں مجھ پر
لہو آنکھوں سے ٹپکایا ہے میں نے عمر بھر وشمہ
رہی ہے زندگی میری بڑی نا مہرباں مجھ پر