ان آنکھوں میں اب بھی انتظار باقی ہیں
لوٹ آؤں کہ دل بقرار اب بھی باقی ہیں
پھر بہاروں کا موسم آ رہا ہیں لکی
اور میری زندگی میں اب بھی خزاں باقی ہیں
یہ چاند ستارے اک بچھڑے ساتھی کی بہت یاد دلاتے ہیں
کہ تیری یادوں میں تڑپنے کا خمار اب بھی باقی ہیں
کیا یاد ہیں ! وہ ندی کا کنارہ جہاں ہم ساتھ چلتے تھے
وہاں ہمارے قدموں کے نشان اب بھی باقی ہیں
یہ دوریاں تو مٹانے سے ہی مٹتی ہیں
تو کیا تم بھول گئے کہ منانے کے انداز اب بھی باقی ہیں