موت کی دو مجھے دعا مرشد
زندگی ہو گئی سزا مرشد
ڈھونڈ آئی ہوں اس جہاں بھر میں
دردِ دل کی نہیں دوا مرشد
ساتھ میرے رہا جو برسوں تک
ہو گیا پل میں وہ جدا مرشد
درد ، غم، اشک اور تنہائی
یہ وفاؤں کا ہے صلہ مرشد
کیا بتاؤں محبتوں کا مری
کس طرح قافلہ لٹا مرشد
اب میں منزل پہ کس طرح پہنچوں
جب نہیں کوئی راستہ مرشد
جس کا کوئی نہیں زمانے میں
اس کا حامی ہے بس خدا مرشد
چھوڑ ”وشمہ “ کو قبر میں تنہا
پڑھ گئے لوگ فاتحہ مرشد