میرے ہمدم
اے مرے دوست
اے جیون ساتھی
یاد ہے تم نے یہ اک روز کہا تھا مجھ سے
تیرے ہونٹوں پہ کسی گل کا گماں ہوتا ہے
تیری سانسوں سے گلابوں کی مہک آتی ہے
تیری آنکھیں ہیں کہ کھلتے ہوئے شفاف کنول
ان میں اپنی مجھے تصویر نظر آتی ہے
(ایسا کچھ بھی نہ تھا یہ صرف محبت تھی تری
تو نے سمجھا تھا جو ایسا تو عنائیت تھی تری
جانتی ہوں کہ بڑی عام سی صورت ہے مری
چن لیا تم نے مجھے ساتھی یہ قسمت تھی مری)
آج کیا بات ہوئی کیوں ہے خفا تو مجھ سے؟
نہ وہ پہلی سی محبت نہ مروت ہے کوئی
ہے اگرچہ کوئی شکوہ نہ شکائت ہے کوئی
پھر بھی لہجے میں ترے اتنی رعونت کیوں ہے ؟
بے وجہ مجھ سے یہ بے نام عداوت کیوں ہے ؟
تھی وجہ کوئی تو پھر مجھ سے کہا تو ہوتا ؟
کیا ہوئی مجھ سے خطا مجھ کو پتہ تو ہوتا
روٹھ کر مجھ سے مری جان جلاتے کیوں ہو
میرے اپنے ہو تو پھر مجھ کو ستاتے کیوں ہو؟
مجھ کو اپنی وہی پہلی سی محبت دے دو
پاس آنے کی مجھے اپنے اجازت دے دو
کڑوے لہجے میں نہ اب بات کرو تم مجھ سے
اپنے لہجے کو وہی پھر سے حلاوت دے دو
ساتھ دو دن کا نہیں ساتھ ہے جیون بھر کا
کھل کے کہہ دو تمہیں کس بات کا ہے اب دھڑکا
دل کی دھڑکن مری رک جائے نہ خاموشی سے
رہ کے چپ یوں نہ لگاؤ مرے دل پر چرکا
میرے ہمدم
اے مرے دوست
اے جیون ساتھی