اور اس جیسی بجھارت بھی نہیں ہو سکتی
زیست کے ساتھ تجارت بھی نہیں ہو سکتی
ہم ترے ساتھ محبت بھی نہیں کر سکتے
اور ترے ساتھ شرارت بھی نہیں ہو سکتی
ہم تو بس دیکھ ہی سکتے ہیں ترا رنگ ہنر
اپنے جیسوں سے نصیحت بھی نہیں ہو سکتی
میرے گلشن میں خزاں کا ہے بسیرا پھر بھی
غم میں غمگین یوں حالت بھی نہیں ہو سکتی
میری یہ زیست مثالی ہے ترا پیار ملا
اس سے بڑھ کر تو فضیحت بھی نہیں ہو سکتی
ایسے منصف سے بھلا اورامیدیں کیا ہوں
جس سے اپنی یہ وکالت بھی نہیں ہو سکتی
وہ تو کہتے ہیں سبھی چھوڑ کے آؤ ملنے
وشمہ ہم سے یہ جہالت بھی نہیں ہو سکتی