پگلی سی لڑکی
Poet: چوہدری پرویز افضل Ch Pervaiz Afzal By: Ch Pervaiz Afzal, Jhelum Sohawa/Dubai UAEوہ پگلی سی لڑکی کہتی ہے
وہ کہتی ہے مجھ محبت کے چکروں میں نہیں پڑنا
میں کہتا ھوں پگلی محبت جس کے نصیب میں ھو وہ خود اس کے چکر میں آجاتا ہے
وہ کہتی ہے مجھ سے محبت نہیں ہوتی
میں کہتا ھوں ارے بے ......خبر محبت کی نہیں جاتی محبت ہوجاتی ہے
وہ کہتی ہے تم محبت کیسے کرتے ہو
میں کہتا ھوں جیسے سانس بھرتا ہوں
وہ کہتی ہے محبت کیا ہے
میں کہتا ھوں محبت تم ہو
وہ کہتی ہے کہ میں کیا ہوں
میں کہتا ھوں تم پھول ہو
وہ کہتی ہے پھول کیا ہے
میں کہتا ھوں پھول گلاب ہے
وہ کہتی ہے یہ گلاب کیا ہے
میں کہتا ھوں کے گلاب تم ہو
وہ کہتی ہے اگر میں گلاب ھوں تو خوشبو کیا ہے
میں کہتا ہوں خوشبو احاس ہے
وہ کہتی ہے احاس کیا ہے
میں کہتا ھوں احاس آس ہے
وہ کہتی ہے آس کیا ہے
میں کہتا ھوں آس تم ہو
وہ کہتی ہے محبت میں آس کیسی
میں کہتا ہوں آس محبت کی آنکھ ہے
وہ کہتی ہے آنکھ میں کیا ہے
میں کہتا ہوں آنکھ میں سپنا ہے
وہ کہتی ہے سپنا کیا ہے
میں کہتا ھوں سپنا تم ہو
وہ کہتی ہے اگر میں سپنا ہوں تو خواب کہاں ہیں
میں کہتا ہوں خواب دل سے ہیں
وہ کہتی ہے دل میں کیا ہے
میں کہتا ہوں دل میں درد ہے
وہ کہتی ہے دردکیا ہے
میں کہتا ہوں درد ہی محبت ہے
پھر وہ پگلی یہی پوچھتی ہے محبت کیا ہے
میں ہمیشہ کی طرح کہتا ہوں محبت تم ہو تم ہو اور بس صرف تم ہو
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






