وه لڑکی تیری چاہ میں موم بن کر پگھل گئی
یوں توحید سے وه آشنا ہوئی تھی
نہ تجھ سے پہلے کوئی تها
نہ تیرے بعد کوئی ہے
اب موسم خزاں اس کے گھر میں ٹهر سا گیا ہے
اس کی روح کے برف زار میں
اک سناٹا رک سا گیا ہے
اس کی آنکھوں میں اک وہی دهندلا سا منظر ساکت ہے
وہ تیرا ہاتھ جهٹک کر پلٹ جانا
اب وہ بلاوجہ کبھی ہنستی ہے
کبھی رو دیتی ہے
لوگ اس کو دیکھ کر اکثر یہ کہتے ہیں بے چاری پگلی