پھر ملاقات کی جیسے کہ ضرورت سے ملے
دل میں یوں آن بسا، دید کی حاجت سے ملے
شوخیاں بھول گئے عمر کے ڈھلتے ڈھلتے
آنکھ میں ناچتی معصوم شرارت سے ملے
آنکھ جو نم ہو وہی دیدۂ تر میرا ہے
موج غم اٹھے کہیں اسکی عنایت سے ملے
اس شر آباد خرابے میں کہاں حسن و جمال
حسن جتنا بھی ہے سب حسن محبت سے ملے
مژدہ ہجر شب وصل وہ دیتا ہی رہا
وصل برپا تو ہوا، لطف و مسرت سے ملے
محو حیرت ہوں میں جس چیز سے گھن آتی تھی
وہ ضرورت جو بنی، پھر وہ کراہت سے ملے
آئنہ جھوٹ یہ کہتا ہے کہ وشمہ وہ نہیں
عکس میں اُس کی ذرا سی بھی شباہت سے ملے