پھیلی ہوئی ہے دشت میں یہ داستان دل
Poet: وشمہ خان وشمہ By: وشمہ خان وشمہ, ملایشیاگزری ہوئی ہواؤں میں جا کر بکھر گیا
دریا میں میرا نام بہا کر اتر گیا
پل پل پھگلتی رات میں جو منتظر رہی
پھر سارے خواب میرے وہ جلا کر گیا
ساحل پہ اک بنا کے گھروندا سا ریت کا
ہر ایک غم کو دل سے لگا کر گزر گیا
کب تک خیال یار کے زندان میں رہوں
میرا تو سب وجود ہلا کر کدھر گیا
پھیلی ہوئی ہے دشت میں یہ داستان دل
اٹھنے لگیں ہیں انگلیاں ہستی پہ گر گیا
کیسے ہو اب یقین کہ وہ لوٹ آئے گا
وعدوں کے خواب مجھ کو دکھا کرد ھر گیا
ہسنے لگے تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے
جیسے کوئی چمکتا ستارہ سنور گیا
گلشن میں ہر طرف ہے قیامت مچی ہوئی
آیا ہے ایک ایسا نظارہ بکھر گیا
صاحب ہمارا پھول سا پیکر عجیب ہے
اس کا پتا نہیں کہ وہ اب تک کدھر گیا
وہ شخص میری سوچ سے بڑھکر گزر گیا
وہ تاحیات اس لئے بھی دربدر گیا
ٓاشعار کی زبان میں وشمہ کو دیکھئے
بے ربط دل کی بہکی ہوئی بات کر گیا
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






