ُاجالوں کے شہر میں تمہیں احساس نہ ہوا
مگر اک تنہا سے پوچھوں کہ کتنی تاریک رات ہے
درد اب تو حد سے بھڑتا جا رہا ہیں لکی
روشنی ہونے کے باوجود کتنی تاریک رات ہے
کیا یاد ہیں - جب تم چھوڑ کے گئے تھے مجھے ؟
ُاس رات کی طرح آج پھر برسات اور کتنی تاریک رات ہے
ُامیدوں کا چراغ بھجتا ہیں اور کبھی جلتا ہے
ہیں چاروں طرف مایوسی کے بدل کہ کتنی تاریک رات ہے
نجانے کیوں بجلی کی کڑک سے دل ڈوب رہا ہے
یاد آ رہے ہیں تیرے تلیخ الفاظ کہ کتنی تاریک رات ہے
میرے قلم کی سیاہی نے بھی کیا آج ختم ہو جانا تھا لکی ؟
جب سوچا لکھ دیں الوادع - کہ کتنی تاریک رات ہے
میرے آنسوں تو بارش نے سماء لیے اپنے اندر
کاش ! میسسر ہوتا تیرا ساتھ کہ کتنی تاریک رات ہے