کاش، کبھی، کسی دن، کوئی تو تیرا پیغام آئے
یاد مجھے تُو کر بیٹھے ، کوئی تو ایسی شام آئے
پیاس اس کی بجھانی ہے، پیاسا رہا جو عمر بھر
لبوں سےتیرےیہ نکلے،جب سامنےتیرے جام آئے
تیری محبت میں سیکھ رہا ہوں دنیا کا ہر فن
نہ جانے تُو کبھی ، کسی دن، کب ، کونسا کام آئے
ہے دعا کہ تُو مانگے،ساتھ رُخؔ کا کچھ اس طرح کا
جیسےپہلی تختی میں ہمیشہ"م" سے پہلے "ل" آئے