کسی بھی کام میں اب دِل مِرا ذرا نہ لگے
کسی کی شکل اب اچھّی تِرے سِوا نہ لگے
نِگاہِ ناز نے جانے کِیا ہے کیا جادُو
کہ کوئی کام نہ ہونے پہ بھی رُکا نہ لگے
رہے ملال، جو ضائع ہو ایک لمحہ بھی
تِرے خیال میں گُزرے جو دِن، بُرا نہ لگے
خرامِ ناز ہے اُس کا، کہ جُھومنا گُل کا
مُماثلت میں، جو پُوچھو تو کُچھ جُدا نہ لگے
یقین میری محبّت پہ آگیا، شاید
سزا وہ دیتے ہیں ایسی، کہ جو سزا نہ لگے
اب اور مشورے اُن کو نہ دو خُدا کے لیے
تمھاری بات جنھیں اب کوئی بجا نہ لگے
بہار آئی ہے، پھر بھی ہے اُن کے دل میں خلش
تو پُھول جیسا وہ چہرہ، کِھلا کِھلا نہ لگے