کسی کو جیتو یہ ہارو، کیا فرق پڑتا ہے
چاہے جی بھر کے اُجاڑو، کیا فرق پڑتا ہے
عَکس نمایا نہیں ہو گا کبھی اندھیروں میں
آئینہ جتنا بھی نِکھارو، کیا فرق پڑتا ہے
جاَبجہ آنکھوں سے جَھلکنے لگے اُداسی جب
چہرہ جتنا بھی سنوارو، کیا فرق پڑتا ہے
دل کی فطرت ہے محبت میں مبتلا ہونا
اسکو جتنا بھی سدھارو، کیا فرق پڑتا ہے
جو ہوں منکر وفاؤں کے ہر حوالے سے
ان پہ جی جان بھی وارو، کیا فرق پڑتا ہے
تم ملے ہو اگر یونہی بچھڑنے کیلئے
تو کچھ پَل ساتھ گزارو، کیا فرق پڑتا ہے
ڈھل ہی جائیگا تصور کا رنگ بھی آخر
کسی کو جتنا بھی نِہارو، کیا فرق پڑتا ہے
جو وقت و حالات کی گردش میں کہیِں کہو جائیں
انکو جتنا بھی پکارو، کیا فرق پڑتا ہے
لُٹ گیا ہوں میں سرِ عام سب کے سامنے مگر
دیکھتے جاؤ اے پیاروں، کیا فرق پڑتا ہے
جڑے رہنا ہے سمندر سے اگر ساحل بن کر
تو ڈوب جاؤ اے کناروں، کیا فرق پڑتا ہے
لہو میں شامل ہے آدھورے تعلق کا زہر
اب زندگی جیسے بھی گزارو، کیا فرق پڑتا ہے
اپنی خواہش کا جو خود ہی قاتل ہو حُسینؔ
اسکو مقتل میں اُتارو، کیا فرق پڑتا ہے