مفلسِ زندگی اب نہ سمجھے کوئی مجھ کو اُلفت کا تیری گہر مل گیا
نہ تعجب کریں میرے حالات پر ایک پتھر کو بھی دیدہ ور مل گیا
تیری چشمِ کرم ہے میرے حال پر تیرے سائے ہیں میرے خدوخال پر
اس عنایت کا میں مستحق تو نہیں مجھ کو قسمت سے کیسا بشر مل گیا
یہ حقیقت ہے کوئی فسانہ نہیں گو تیرا قدر داں یہ زمانہ نہیں
میری نظروں سے لیکن جو دیکھے کوئی مفت میں مجھ کو لعل و گہر مل گیا
میرے اشک رواں ہوں تری رہ گذر میرا قلبِ حزیں ہو تیرا مستقر
تیرا ممنون فیصلؔ رہے عمر بھر کیسا پارس سرِ رہ گذر مل گیا