میں نے جسے چاہا وہ اتنا تو نایاب نہ تھا
اپنی آرزؤں کا شباب تو پہلے سے سیراب نہ تھا
اپنے تو خیال سے سب کچھ ہمیں مل جاتا
پر نصیبوں کی کہانی میں ایسا کچھ حساب نہ تھا
کیسے سمجھاؤں دل کو کہ بھول جائے پرانی باتیں
جو تجھے نہ مل سکا وہ تیرا نصیب نہ تھا
بے وجہ سا دکھ نہ جانے دل میں چھبتا ھے کیوں؟
اپنی زندگی میں پہلے تو یہ سوال نہ تھا
الفاظ کی تہوں میں کئی درد چھپائے ھوں
درد دل کا کیا کروں: جو نہ ھوتا تو کمال نہ تھا؟
بے وجہ کی الفت میں اپنا من جلائے ھوں
میرے ہاتھ کی لکیروں میں اُسکا تو نشان نہ تھا