یوں تو وہ دل کی بستی بچانے میں رہ گئے
لیکن کسی کے خواب سہانے میں رہ گئے
ہم اپنے ہی خیال کےمنظر میں قید تھے
ہم اپنے دل کا پنچھی اڑانے میں رہ گئے
ہم پوجتے تھے جس کو وہ بت ٹوٹ بھی چکا
پھر بھی اسی کے دیکھو زمانے میں رہ گئے
رکھے ہوئے ہیں گھر میں اداسی کے کچھ چراغ
جن کو ہوا کے ہاتھ بجھانے میں رہ گئے
کچھ تو ہوا کے دوش پہ محوِ سفر رہے
کچھ پنچھی میرے پیار کے دانے پہ رہ گئے
خونِ جگر میں ہاتھ تھے اپنے اسی لئے
شعر و غزل ہی ہم تو بنانے میں رہ گئے
جس زندگی کی بھیڑ میں وشمہ جی گم تھے ہم
اس زندگی کی راہ بنانے میں رہ گئے