یہ عِشوہ طرازی یہ نازو ادائیں
سمندر سے گہری غزالی نگاہیں
یہ بادِ بہاراں یہ رنگیں فضائیں
صنم لے رہی ہیں تمھاری بلائیں
کنول کے سی نازک جوانی تمھاری
شرارت بھری ہیں یہ چنچل ادائیں
یہ خوشبو تمھارے بدن کی ہے شاید
مہکنے لگی ہیں ہیں جو سُندر فضائیں
جلادیں دلوں کو شعاوں سے پل میں
اگر سر جھکا کر وہ نظریں اُٹھائیں
حسیں اتنا ربّ نے بنایا جو تم کو
حسینو! لگی ہیں ہمھاری دعائیں
تکبر نہ کرنا قسم سے وگرنہ
لگیں گی تمہیں ہم فقیروں کی آہیںیہ