آئینہ
Poet: محمد عثمان By: محمد عثمان, Faisalabadہر آئینے میں دڑار ہے
ہر آئینہ ہی بیکار ہے
ہر آئینے میں عیب ہے
پر ہر آئینہ ہی وقار ہے
ہر آئینے میں غرور ہے
کہ ہر آئینہ ہی سرکار ہے
ہر آئینہ ہی بےعکس یے
ہر آئینہ ہے ناآئینہ
ہر آئینہ ہی سیاہ ہے
ہر آئینہ ہے بےمعنیٰ
ہر آئینے کا قصور ہے
یہ جو آئینوں میں فتور ہے
کبھی ہر آئینہ ہی اک نور تھا
اب یر آئینہ ہی بے نور ہے
یہ جو ہر آئینہ ہی بےخیال ہے
یہ بھی آئینوں کا ہی کمال ہے
ہے آئینوں میں کون آئینہ
تو ہر آئینہ ہی بےمثال یے
ہر آئینہ ہی ہے عروج پر
ہر آئینے کا یہی حال ہے
نہیں ہے آئینوں میں کوئی بےآئینہ
اسی لیے ہر آئینے پہ زوال ہے
اگرچہ ہر آئینے پہ خراش ہے
پر ہر آئینے کا اک تراش ہے
اور دیکھ تُو آوارگیِ آئینہ
کہ ہر آئینے کو تلاش ہے
کوئی پوچھے تو آئینہ ساز سے
کہ جو بےعکس یے ہے وہ بے آئینہ
یہ کھیل ہے یہ کیا کھیل ہے
کہ ہر آئینہ ہے بس اک آئینہ
اور وہ بن کے بیھٹا آئینہ ساز ہے
کہ سب آئینوں کا وہ راز ہے
آئینوں کے لیے وہ کمال ہے
پر کسی آئینے پہ وہ صرف خیال ہے
یہ کھیل ہے یہ صرف کھیل ہے
یہ جو سب آئینوں کا میل ہے
تب یہ کھیل ہوگا بےآئینہ
جب دیکھے گا کوئی آئینہ
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






