بخوشی جل تو رہے تھے آتش عشق میں ہم
جہاں میں وباوں سے پھر عذاب اور بھی آن پڑے
اے عشق ! کچھ تو مقدار بڑھا دے رحم کی
کہ موت کے اب تو کئی اسباب اور بھی آن پڑے
ابھی تو پچھلے سبق پر تھا سفر کے میں. مسافر
وہ درد گھٹا نہیں ...... نئے نصاب اور بھی آن پڑے