آخرش درد بلا خیز نے پھر آن لیا
جس سے بچتے تھے عدو تیز نے پھر آن لیا
سات پردوں میں تو محبوب چھپا رکھا تھا
پر رقیبان فتن بیز نے پھر آن لیا
اس کہانی کا بھی انجام کوئی بتلاو
ختم بیماری، تو پرہیز نے پھر آن لیا
خالی پیمانہ اگر رہتا تو اچھا ہوتا
رند کو پیالہء لبریز نے پھر آن لیا
خون پر خون ہوا، ظلمت شب کے اُس پار
دن میں تاریکیء خوں ریز نے پھر آن لیا
جان چھوٹی ہی تھی مشکل سے ضیاء صاحب سے
آن کی آن مِِیں پرویز نے پھر آن لیا
پھر سے موزوں ہے طبیعت تری اب کیا اظہر؟
فکر کی ندرت زرخیز نے پھر آن لیا