خزاں سے پہلے اُجڑ چکے تھے باغ سارے
وہ کِھل اُٹھے ہیں کسی دعا سے جلا نہ دینا
حقیقت سے پہلے بگڑ گئے تھے خواب سارے
سنور گئے ہیں کسی دعا سے مٹا نہ دینا
آنے سے پہلے دب گئے تھے خیال سارے
وہ پھر اُٹھے ہیں کسی دعا سے دبا نہ دینا
صدیوں کے جاگے غم کے مارے اُداس سارے
سو رہے ہیں کسی دعا سے اُٹھا نہ دینا
غفلت میں سوے خوشی کے مارے مدہوش سارے
جاگ اُٹھے ہیں کسی دعا سے سُلا نہ دینا
وزن کے مارے نعمان تمہارے اشعار سارے
اصلاح سے پہلے کسی دعا سے سُنا نہ دینا