آنکھوں کے لیے تیرا ہے دیدار ضروری
ہاں پھر سے محبت کا ہے اظہار ضروری
اس شہر میں اب میری جگہ بنتی نہیں ہے
جانا ہے سمندر کے مجھے پار ضروری
آنکھوں میں محبت بھی نظر آتی ہے ،اکثر
انکار ضروری ہے نہ اقرار ضروری
اب ساتھ نبھانے کی قسم کھاتے ہیں دونوں
اب جیت ضروری ہے نہ کوئی ہار ضروری
یہ میری بھی عادت ہے کہ چائے سے بھی پہلے
پڑھتی ہوں زمانے کا میں اخبار ضروری
پھر ترکِ تعلق کا کوئی رنج نہ ہو گا
ملنا ہے تجھے میں نے بھی اک بار ضروری
چھوڑو نا یہ پردیس کے قصے ہیں ہزاروں
آ جاؤ نا وشمہ ہے اگر پیار ضروری