شام اتری تو کئی زخم یہ دکھاؤ تو سہی
- تیری تصویر کا ہاتھوں سے بناؤ تو سہی
موسمِ گل پہ بھی کیوں آج خزاں ہے بھاری
جانے کس سمت سے یہ درد بھی جاؤ تو سہی
لوگ کرتے ہیں زمانے میں وفا کی باتیں
اب ڈھلک جائے نہ آنکھوں سے آؤ تو سہی
چاند کاٹے گا کہاں رات سہانی اپنی
چاند چہرے پہ اگر اس کو سجا ؤ تو سہی
موسمِ گل پہ بھی کیوں آج خزاں ہے بھاری
جانے کس سمت سے یہ درد لگاؤ تو سہی
میں بھی رکھ دوں گی یہاں پھوڑ کے آنکھیں اپنی
مری آنکھوں میں تو سب رنگ ملاؤ تو سہی
کون پڑھتا ہے یہاں درد کہانی وشمہ
مرے اس نام کو بھی گھاؤ لگاؤ تو سہی