کچھ بننے کی چاہ تھی
کچھ کرنے کی چاہ تھی
پھولوں کو لبوں پے سجا لیتے تھے
کبھی ہم میں بھی ایسی ادا تھی
محفلوں نے منہ موڑا تو
تنہایوں کے سفر پے
چل پڑے گیے تنہا کہا خبر تھی
کہ ہم بھی اتنی اناء تھی
جس کے در سے نکلے تھے
کبھی نہ لوٹنے کا وعدہ کر کے
مگر افسوس اسی در کی تو
برسوں سے ہمیں تلاش تھی
میں ظالم تو نہیں ، پھر
کیوں کہہ دیا ُاس نے ظالم
وہ کہتی تھی ُانہیں غزلیں جن میں
چھپی حرف بے حرف میری ہی داستان تھی
کس کس طرح کے الزام دیے تھے
اس دنیا نے ُاس نادان کی نیت پے
پر باخدا گوا ہیں کہ ُاس
شخص کی نیت کس قدر صاف تھی