یار میں اس لیے اقرار نہیں کر سکتا
میں اسے, اس جیسا پیار نہیں کر سکتا
سہے گا کیسے غم ترک وفا اس عمرمیں وہ
بس یہی سوچ کہ میں انکار نہیں کر سکتا
پوچھ لیتا وہ مجھے کاش وفا سے پہلے
اور میں کہتا کہ خبردار نہیں کر سکتا
دل جس کا مجسمہ ہے.. پارسائی کا
میں ایسے شخص کو گنہگار نہیں کر سکتا
میں تو خود عشق حقیقی کا طالب ہوں
میں اسے اپنا طلبگار نہیں کر سکتا
بہت مشکل ہے مسافر یہ محبت کی سبیل
میں اسے ایسے یہاں خوار نہیں کر سکتا