اندھیروں پر جبینِ دہر سے کر وار بیٹھے ہیں
نئے سُورج کی خاطر برسرِ پیکار بیٹھے ہیں
وطن کی سرزمیں کو نسلِ کہنہ زخم دے بیٹھی
مگر ہم زخم بھرنے کے لئے تیّار بیٹھے ہیں
وجُودِ نصف اپنا سازشوں میں کٹ چکا صد حیف!
وُہی سازش کی رُت ہے، ہم مگر لاچار بیٹھے ہیں
زبانوں کی ہی بنیادوں پہ کیوں تقسیم کرتے ہو؟
سنو! زنجیرِ پاکستاں میں ہم ہشیار بیٹھے ہیں
مصمَّم عزم سے کرنی ہے ہم کو جستجو لوگو
اِسی مٹّی میں ہِیروں کے چُھپے انبار بیٹھے ہیں
مقدّم سب پہ رکھنا ہے، مفادِ ملک کو وشمہ
وطن میں ہر جگہ چھپ کر کئی غدّار بیٹھے ہیں