اِک انتخاب وہ یادوں کے ماہ و سال کا تھا
جو حرفِ اَبر زدہ آنکھ میں ملال کا تھا
شکستِ آئینۂ جاں پہ سنگ زن رہنا
ہنر اسی کا تھا، جتنا بھی تھا، کمال کا تھا
یہ دیکھنا ہے کہ کُھل کر بھی بادباں نہ کُھلے
تو اس سے کتنا تعلّق ہوا کی چال کا تھا
قبائے زخم کی بخیہ گری سے کیا ہوتا
مِرے لہو میں تسلسل تِرے خیال کا تھا
پرانے زخم بھی خالد! مِرے، ادھیڑ گیا
جو ایک زخم، کفِ جاں پہ پچھلے سال کا تھا