اِک عجیب سا درد ہے دل میں سمویا ہوا
کوئی سالوں سے ہے جہاں میں سویا ہوا
برسوں گزر گئے ہیں مجھے مرے ہوئے
روح آج بھی ڈھونڈتی ہے کچھ کھویا ہوا
نامعلوم مجھےٗ وہ کون ہے یا کیا ہے؟
دل کس کے لیے ہے اتنا رویا ہوا
نشیب و فراز میں ٗ مَیں خود ہی ملوث
جبکہ کچھ نہیں یہاں غم میں ڈبویا ہوا
مَیں تن تنہا اور یہ مہکی فضا
یہ سارا عالم جنت سے بھگویا ہوا
یہاں کی دھوپ ٗ چمکتے سونے کا روپ
یہاں کا منظر دودھ سے دھویا ہوا
ہریالیاں ہی ہریالیاں میرے ہر سو مگر
مجھ میں شجر بے کلی کا اِک بویا ہوا
یہ اونچے نیچے تنہا خالی مکانوں کو
میری تلاش نے ہے مسلسل پرویا ہوا