سنو لڑکی ! کیوں اداس رہتی ہو تم؟
کیا کبھی جانے والے کو کوئی روک پایا ہے؟
کیا کبھی بہتے دریا کا کوئی رخ موڑ پایا ہے؟
کیا کبھی ریت کسی کی مٹهی میں قید ہوئی ہے؟
کیا کبھی گیا وقت لوٹ کر آیا ہے؟
یہ جو ہر وقت تیری آنکهوں کی برسات یے.
یہ درد میں ڈوبی جو ہر رات ہے
نوشتہ وقت پر لکھی جارہی ہے
کسی کے امتحان کی گهڑی قریب آرہی ہے